دریدہ جیب گریباں بھی چاک چاہتا ہے
وہ عشق کیا ہے جو دامن کو پاک چاہتا ہے
مرے غموں سے سروکار بھی وہ رکھے گا
میری خوشی میں جواب اشتراک چاہتا ہے
پھر آج شرط لگائی ہے دل نے وحشت سے
پھر آج دامن احساس پاک چاہتا ہے
وہ تنگ آ کے زمانے کی سرد مہری سے
تعلقات میں پھر سے تپاک چاہتا ہے
تمام عمر رہا خود تباہ حال مگر
نصیب بچوں کا وہ تابناک چاہتا ہے
عجیب نظروں سے تکتا ہے وہ دکانوں کو
غریب بچی کی خاطر فراک چاہتا ہے
بغیر خون کئے دل کو کچھ نہیں ملتا
کوئی بھی فن ہو ذکیؔ انہماک چاہتا ہے
غزل
دریدہ جیب گریباں بھی چاک چاہتا ہے
ذکی طارق