دریچے سو گئے شب جاگتی ہے
میرے کمرے میں کیسی خامشی ہے
جدھر دیکھو فسردہ زندگی ہے
مجھے لگتا ہے یہ غم کی صدی ہے
جو رستوں میں بھٹکتی پھر رہی ہے
اسے پہچان فکر زندگی ہے
سمندر کا تموج ابر و باراں
زمیں کے دل میں پھر بھی تشنگی ہے
ہر اک لمحہ ہمارا خون تازہ
محبت جونک بن کر چوستی ہے
یہ سناٹا یہ تنہائی یہ کمرہ
خیالوں میں چڑیل اب ناچتی ہے
میں نیرؔ کیا دکھاؤں زخم دل کا
کسی کی آنکھ خود نم ہو گئی ہے
غزل
دریچے سو گئے شب جاگتی ہے
اظہر نیر