دریچہ آئنہ پر کھل رہا ہے
مجھے اپنے سے باہر جھانکنا ہے
اکیلا ٹوٹی کشتی پر کھڑا ہوں
کنارا دور ہوتا جا رہا ہے
اسے پہچاننا آساں نہیں جو
ہوا کا رنگ پانی کا مزہ ہے
کہیں اندر ہی ٹوٹے ہوں گے الفاظ
ابھی تک تیرا لہجہ چبھ رہا ہے
وہ اپنے دوستوں کے درمیاں ہے
یا میرے دشمنوں میں گھر گیا ہے
کسی نے آئنہ پر ہونٹ رکھ کر
اچانک شوق کو بھڑکا دیا ہے
خدائے لم یزل تیرے لیے تو
جو ہونا تھا وہ گویا ہو چکا ہے
وہ کیسے آزمائے گا کسی کو
جو پہلے ہی سے سب کچھ جانتا ہے
غزل
دریچہ آئنہ پر کھل رہا ہے
شہنواز زیدی