درگزر جتنا کیا ہے وہی کافی ہے مجھے
اب تجھے قتل بھی کر دوں تو معافی ہے مجھے
مسئلہ ایسے کوئی حل تو نہ ہوگا شاید
شعر کہنا ہی مرے غم کی تلافی ہے مجھے
دفعتاً اک نئے احساس نے چونکا سا دیا
میں تو سمجھا تھا کہ ہر سانس اضافی ہے مجھے
میں نہ کہتا تھا دوائیں نہیں کام آئیں گی
جانتا تھا تری آواز ہی شافی ہے مجھے
اس سے اندازہ لگاؤ کہ میں کس حال میں ہوں
غیر کا دھیان بھی اب وعدہ خلافی ہے مجھے
وہ کہیں سامنے آ جائے تو کیا ہو جوادؔ
یاد ہی اس کی اگر سینہ شگافی ہے مجھے
غزل
درگزر جتنا کیا ہے وہی کافی ہے مجھے
جواد شیخ