درد تو موجود ہے دل میں دوا ہو یا نہ ہو
بندگی حالت سے ظاہر ہے خدا ہو یا نہ ہو
جھومتی ہے شاخ گل کھلتے ہیں غنچے دم بہ دم
با اثر گلشن میں تحریک صبا ہو یا نہ ہو
وجد میں لاتے ہیں مجھ کو بلبلوں کے زمزمے
آپ کے نزدیک با معنی صدا ہو یا نہ ہو
کر دیا ہے زندگی نے بزم ہستی میں شریک
اس کا کچھ مقصود کوئی مدعا ہو یا نہ ہو
کیوں سول سرجن کا آنا روکتا ہے ہم نشیں
اس میں ہے اک بات آنر کی شفا ہو یا نہ ہو
مولوی صاحب نہ چھوڑیں گے خدا گو بخش دے
گھیر ہی لیں گے پولس والے سزا ہو یا نہ ہو
ممبری سے آپ پر تو وارنش ہو جائے گی
قوم کی حالت میں کچھ اس سے جلا ہو یا نہ ہو
معترض کیوں ہو اگر سمجھے تمہیں صیاد دل
ایسے گیسو ہوں تو شبہ دام کا ہو یا نہ ہو
غزل
درد تو موجود ہے دل میں دوا ہو یا نہ ہو
اکبر الہ آبادی