درد سینے میں کہیں چیخ رہا ہو جیسے
تیری جانب سے کوئی تیر چلا ہو جیسے
میرے اشکوں کے سمندر میں کوئی تاج محل
دھیرے دھیرے سے کہیں ڈوب رہا ہو جیسے
عمر گزری مگر احساس یہی رہتا ہے
وہ ابھی اٹھ کے مرے گھر سے گیا ہو جیسے
تیرے ہر نشتری جملے بھی لگے ہیں پیارے
تیرے دشنام کی تاثیر جدا ہو جیسے
شمع کی لو نے اب سر کو جھکایا ایسا
جلتے رہنا بھی مرا میری خطا ہو جیسے
غزل
درد سینے میں کہیں چیخ رہا ہو جیسے
سیدہ نفیس بانو شمع