EN हिंदी
درد شناس دل نہیں جلوہ طلب نظر نہیں | شیح شیری
dard-shanas dil nahin jalwa-talab nazar nahin

غزل

درد شناس دل نہیں جلوہ طلب نظر نہیں

شمیم کرہانی

;

درد شناس دل نہیں جلوہ طلب نظر نہیں
حادثہ کتنا سخت ہے ان کو ابھی خبر نہیں

اور بڑھے گا درد دل رات جو بھیگ جائے گی
دیکھ نہ وقت کی طرف وقت بھی چارہ گر نہیں

کس کو خبر کہ ہم سے کب آپ نگاہ پھیر لیں
نشہ تو دھوپ چھاؤں ہے بادہ بھی معتبر نہیں

ہم تو خزاں کی دھوپ میں خون جگر چھڑک چلے
موسم گل کی چاندنی کس کو ملے خبر نہیں

دل کے تعلقات سے کون سا دل کو چین ہے
آؤ کسی سے توڑ لیں رشتۂ دل مگر نہیں

عشق پہ کیسا دکھ پڑا حسن پہ کیا گزر گئی
آج گلی اداس ہے آج وہ بام پر نہیں

دل سے شمیمؔ گفتگو دیکھیے کب تلک چلے
رات بھی مختصر نہیں بات بھی مختصر نہیں