درد شناس دل نہیں جلوہ طلب نظر نہیں
حادثہ کتنا سخت ہے ان کو ابھی خبر نہیں
اور بڑھے گا درد دل رات جو بھیگ جائے گی
دیکھ نہ وقت کی طرف وقت بھی چارہ گر نہیں
کس کو خبر کہ ہم سے کب آپ نگاہ پھیر لیں
نشہ تو دھوپ چھاؤں ہے بادہ بھی معتبر نہیں
ہم تو خزاں کی دھوپ میں خون جگر چھڑک چلے
موسم گل کی چاندنی کس کو ملے خبر نہیں
دل کے تعلقات سے کون سا دل کو چین ہے
آؤ کسی سے توڑ لیں رشتۂ دل مگر نہیں
عشق پہ کیسا دکھ پڑا حسن پہ کیا گزر گئی
آج گلی اداس ہے آج وہ بام پر نہیں
دل سے شمیمؔ گفتگو دیکھیے کب تلک چلے
رات بھی مختصر نہیں بات بھی مختصر نہیں
غزل
درد شناس دل نہیں جلوہ طلب نظر نہیں
شمیم کرہانی