درد سارے شب خاموش میں گر جاتے ہیں
اشک جاہل ہیں مرے ہوش میں گر جاتے ہیں
بندگی ہم نے طبیعت میں وہ پائی ہے کہ بس
سر خداؤں کے کئی دوش میں گر جاتے ہیں
جانے لغزش کو ہماری سکوں آئے گا کہاں
در سے اٹھتے ہیں تو آغوش میں گر جاتے ہیں
تیرے کوچے سے گزرتے ہوئے خوشیوں کے قدم
تیز چلتے ہیں مگر جوش میں گر جاتے ہیں
اتنے شاطر ہیں یہاں لوگ کسی گلچیں سے
گل بچاتے ہوئے گل پوش میں گر جاتے ہیں
میکدے سے جو نکلتی ہے خموشی رجنیشؔ
لب وہیں ساغر مے نوش میں گر جاتے ہیں

غزل
درد سارے شب خاموش میں گر جاتے ہیں
رجنیش سچن