درد و غم کو ہستئ کم مایہ کا حاصل سمجھ
درس گاہ عشق کی یہ رمز اے غافل سمجھ
جستجو در جستجو آسان ہر مشکل سمجھ
غم نہ کر تدبیر کو تقدیر کا حاصل سمجھ
بھول کر بھی کوئی حرف دل شکن لب پر نہ لا
حق تو یہ ہے دوسرے کے دل کو اپنا دل سمجھ
راہ الفت میں جسے گم گشتگی حاصل ہوئی
ایسے خوش تقدیر کو آسودۂ منزل سمجھ
لذت لطف و طرب غم آشنا رہنے میں ہے
جان کو ہر حال میں آزار کے قابل سمجھ
پائے استقلال میں لغزش نہ آ جائے کہیں
عزم راسخ ہی کو اپنا رہبر کامل سمجھ
عہد ماضی کو نہ رو تقدیر کا ماتم نہ کر
حال کی روداد ہی کو اپنا مستقبل سمجھ
باریابی ہوش کی بازی لگا دینے میں ہے
بارگاہ حسن میں ہشیار کو غافل سمجھ
ناخدا تو کیا خدا کا بھی سہارا چھوڑ دے
قلزم ہستی میں ہر گرداب کو ساحل سمجھ
اب زمانہ بار احساں سر پہ لینے کا نہیں
رخ زمانے کی ہوا کا دیکھ اے غافل سمجھ
باغ عالم کی بہاریں سب خزاں انجام ہیں
عیش سامانی کو وجہ خستگیٔ دل سمجھ
یا طریق دوست داری پر بھروسہ ہی نہ کر
یا فریب دوستی کے سحر کو باطل سمجھ
امتیاز جلوہ و پردہ جہاں رہتا نہیں
وہ مقام آئے تو ذوق دید کو کامل سمجھ
کیوں کسی بیگانہ وش پر دل فدا کرتا ہے تو
اے رشیؔ کچھ ہوش میں آ اپنے دل کو دل سمجھ
غزل
درد و غم کو ہستئ کم مایہ کا حاصل سمجھ
رشی پٹیالوی