درد مندوں سے نہ پوچھو کہ کدھر بیٹھ گئے
تیری مجلس میں غنیمت ہے جدھر بیٹھ گئے
ہے غرض دید سے یاں کام تکلف سے نہیں
خواہ ادھر بیٹھ گئے خواہ ادھر بیٹھ گئے
دیکھا ہووے گا مرے اشک کا طوفاں تم نے
لاکھ دیوار گرے سینکڑوں گھر بیٹھ گئے
کس نظر ناز نے اس باز کو بخشی پرواز
سینکڑوں مرغ ہوا پھاند کے پر بیٹھ گئے
کم ہے آواز ترے کوچہ کے باشندوں کی
نالہ کرنے سے گلے ان کے مگر بیٹھ گئے
مفت اٹھنے کے نہیں یار کے کوچہ سے فقیرؔ
جب کہ بستر کو جما کھول کمر بیٹھ گئے
غزل
درد مندوں سے نہ پوچھو کہ کدھر بیٹھ گئے
میر شمس الدین فقیر