EN हिंदी
درد کو درد کہو درد کے قابل ہو جاؤ | شیح شیری
dard ko dard kaho dard ke qabil ho jao

غزل

درد کو درد کہو درد کے قابل ہو جاؤ

مشتاق صدف

;

درد کو درد کہو درد کے قابل ہو جاؤ
ایسا بھی کیا ہے کہ خود دل ہی سے غافل ہو جاؤ

تم کو طوفان سے لڑنا جو نہیں ہے منظور
پھر تو بہتر ہے کہ کشتی نہیں ساحل ہو جاؤ

امتحاں عشق میں ہونا ہے تو ہوگا وہ ضرور
آگ کے کھیل میں پہلے ہی سے شامل ہو جاؤ

اس سے پہلے کہ کسی اور کا میں ہو جاؤں
میں تمہیں زہر دوں اور تم مرے قاتل ہو جاؤ

لو چراغوں کی بڑھانے سے نہیں کچھ حاصل
نور بن کے شب ظلمات پہ نازل ہو جاؤ

سیکڑوں تجربے بے کار کیا کرتے ہو
ہو مرے درد میں شامل تو مرا دل ہو جاؤ

شور برپا ہے کہ نکلے ہو تلاش غم میں
مخزن غم ہے مرا دل یہیں داخل ہو جاؤ

احمقوں سے جو کبھی واسطہ پڑ جائے صدفؔ
بات کرنے سے کہیں اچھا ہے جاہل ہو جاؤ