درد کو اشک بنانے کی ضرورت کیا تھی
تھا جو اس دل میں دکھانے کی ضرورت کیا تھی
ہم نے جو کچھ بھی کیا اپنی محبت میں کیا
گو سمجھتے ہیں زمانے کی ضرورت کیا تھی
ہو جو چاہت تو ٹپک پڑتی ہے خود آنکھوں سے
اے مرے دوست بتانے کی ضرورت کیا تھی
اتنے حساس ہیں سانسوں سے پگھل جاتے ہیں
بجلیاں ہم پہ گرانے کی ضرورت کیا تھی
ایسے لگتا ہے کہ کمزور بہت ہے تو بھی
جیت کر جشن منانے کی ضرورت کیا تھی
غزل
درد کو اشک بنانے کی ضرورت کیا تھی
سعد اللہ شاہ