درد کی صورت میں وہ عمدہ سا تحفہ دے گیا
بے وفا دنیا میں جینے کا سہارا دے گیا
جسم ہے آزاد لیکن دل اسیر عشق ہے
کچھ حقیقت دے گیا وہ کچھ فسانہ دے گیا
ساری دنیا ایک دن یوں ہی فنا ہو جائے گی
جلتے جلتے ایک پروانہ اشارہ دے گیا
اپنے مستقبل کو روشن کرنے نکلے تھے مگر
شہر کا سورج تو آنکھوں کو اندھیرا دے گیا
ہو گئے کافور سارے غم بہ یک لخت و نظر
جب کبھی وہ داد امید تمنا دے گیا
کس قدر ویران ہے اس کے بنا سارا چمن
سوچتا رہتا ہوں وہ کیا لے گیا کیا دے گیا
رقص فرما ذہن میں ہے اب بھی وہ صورت سحرؔ
جاتے جاتے اپنی یادوں کا خزانہ دے گیا

غزل
درد کی صورت میں وہ عمدہ سا تحفہ دے گیا
سحر محمود