درد کی ساکت ندی پھر سے رواں ہونے کو ہے
موج حیرت کا تماشا اب کہاں ہونے کو ہے
جو گراں بار سماعت تھا کبھی سب کے لیے
اب وہی کلمہ یہاں حسن بیاں ہونے کو ہے
کیوں کریں وہ اپنی قسمت کے ستارے کی تلاش
دسترس میں جن کے سارا آسماں ہونے کو ہے
مجھ کو اس منزل سے گزرے کتنی مدت ہو گئی
وقت میری جستجو میں اب جہاں ہونے کو ہے
تجربے کی آنچ پر ہر شے ہے یوں آتش بجاں
چاندنی بھی صورت برق تپاں ہونے کو ہے
آسماں ترشول اور غوری سے ہے سہما ہوا
فاختہ کا ذکر ایسے میں کہاں ہونے کو ہے
گھر میں ہے آب رواں تو برف ہے منجدھار میں
کچھ نہ پوچھو دہر میں اب کیا کہاں ہونے کو ہے
غزل
درد کی ساکت ندی پھر سے رواں ہونے کو ہے
ارشد کمال