درد کی رات نے یہ رنگ بھی دکھلائے ہیں
میری پلکوں پہ ستارے سے اتر آئے ہیں
دل کے ویرانے میں کس یاد کا جھونکا گزرا
کس نے اس ریت میں یہ پھول سے مہکائے ہیں
ہم نے سوچا تری آنکھیں تو اٹھیں لب تو ہلیں
اس لیے ہم تری محفل سے چلے آئے ہیں
جن سے انسان کے زخموں کا مداوا نہ ہوا
آج وہ چاند ستاروں کی خبر لائے ہیں
چند سکوں کی طلب حسرت بے جا تو نہ تھی
پھر بھی ہم پھیلے ہوئے ہاتھ سے گھبرائے ہیں
غزل
درد کی رات نے یہ رنگ بھی دکھلائے ہیں
پروین فنا سید