EN हिंदी
درد کی لے کو بڑھا دو کہ میں زندہ ہوں ابھی | شیح شیری
dard ki lai ko baDha do ki main zinda hun abhi

غزل

درد کی لے کو بڑھا دو کہ میں زندہ ہوں ابھی

تنویر احمد علوی

;

درد کی لے کو بڑھا دو کہ میں زندہ ہوں ابھی
اور اس دل کو دکھا دو کہ میں زندہ ہوں ابھی

میرے احساس کی یہ باڑھ تو رکنے سے رہی
مجھ کو دیوانہ بنا دو کہ میں زندہ ہوں ابھی

کرب تنہائی کا نشتر رگ جاں میں رکھ دو
مجھ کو احساس دلا دو کہ میں زندہ ہوں ابھی

حوصلہ جینے کا ہوتا ہے پر اتنا بھی نہیں
مجھ کو اس کی بھی سزا دو کہ میں زندہ ہوں ابھی

آرزو ایک المناک کہانی ہی سہی
پھر سے اک بار سنا دو کہ میں زندہ ہوں ابھی

سایہ بن کر میں صلیبوں سے اتر آیا ہوں
اب کوئی اور سزا دو کہ میں زندہ ہوں ابھی

جوئے خوں آنکھوں سے بہتی ہی رہے گی تنویرؔ
آخری شمع بجھا دو کہ میں زندہ ہوں ابھی