EN हिंदी
درد کی خوشبو سے یہ مہکا رہا | شیح شیری
dard ki KHushbu se ye mahka raha

غزل

درد کی خوشبو سے یہ مہکا رہا

یوسف تقی

;

درد کی خوشبو سے یہ مہکا رہا
جب کبھی کمرے میں میں تنہا رہا

عمر کی ندی چڑھی، اتری، گئی
جسم کا صحرا مگر جلتا رہا

دن کو تپتی فائلوں کی ریت پر
میں تو ابرق کی طرح بکھرا رہا

رات بھر اک جسم کی دیوار سے
میں کلینڈر کی طرح چپکا رہا

شب پلنگ پر ہانپتے سائے رہے
خواب دروازے کھڑا تکتا رہا

یاد کی ڈبی میں کیوں رکھو مجھے
میں جلی تیلی ہوں، مجھ میں کیا رہا