درد کی خوشبو سے سارا گھر معطر ہو گیا
زخم کھا کھا کر بدن پھولوں کا پیکر ہو گیا
مائل پرواز ہر لحظہ ہے مرغ جستجو
میں جو سیڑھی پر چڑھا وہ اور اوپر ہو گیا
گوہر امید لائیں کس اتھاہ میں ڈوب کر
ہم جو غوطہ زن ہوئے گہرا سمندر ہو گیا
ترچھے سورج کی شعاعیں دے گئیں اک ہم سفر
میرا سایہ ہی مرے قد کے برابر ہو گیا
ہم شفق کو دیکھ کر تاریکیوں میں کھو گئے
آگ چھت پر تھی دھواں کمرے کے اندر ہو گیا
پیڑ پر بیٹھے پرندوں پر گماں پتوں کا تھا
دم زدن میں آنکھ سے اوجھل وہ منظر ہو گیا
صبح کا آغاز تھا اور چہرے پر تھی گرد شب
پھول کی صورت شگفتہ میں نہا کر ہو گیا
میں سمجھتا تھا تعاقب میں فقط ہیں واہمے
لوٹ کر دیکھا مگر جس نے بھی پتھر ہو گیا
سنگ پانی میں گرا کر دیکھ لو ابھرے گی لہر
بات ایسی تھی کہ میں آپے سے باہر ہو گیا
جن درختوں کی گھنی چھاؤں تھی وہ سب کٹ گئے
یوں لگا شاہدؔ مجھے جیسے میں بے گھر ہو گیا
غزل
درد کی خوشبو سے سارا گھر معطر ہو گیا
سلیم شاہد