EN हिंदी
درد کی اک کتاب ہے کوئی | شیح شیری
dard ki ek kitab hai koi

غزل

درد کی اک کتاب ہے کوئی

پونم یادو

;

درد کی اک کتاب ہے کوئی
زندگی اضطراب ہے کوئی

تیرگی کی ادا بتاتی ہے
داؤں پر ماہتاب ہے کوئی

ہو گیا جس کو وہ ہوا تنہا
عشق بھی اک عذاب ہے کوئی

تیری جانب ہی کھینچ لاتی ہے
یاد جیسے سراب ہے کوئی

اس کا خاموش دیکھنا بھر ہی
اک مکمل جواب ہے کوئی

جی رہا ہے مگر نہیں جیتا
یوں بھی خانہ خراب ہے کوئی

ہائے تحریر اس کی آنکھوں کی
گو کہ مشکل کتاب ہے کوئی

تو میرے سامنے رہے پھر بھی
میں سمجھتی ہوں خواب ہے کوئی

تشنگی اور بڑھتی جاتی ہے
تیری قربت سراب ہے کوئی