درد کی آنکھ سے تیرے غم کا لہو
بن کے سیلاب بہنے لگا چار سو
دامن دل جھٹک کر کوئی چل دیا
گنگناتی رہی دیر تک آب جو
خشک شاخوں نے دھرتی کا غم کہہ دیا
زرد پتوں کی بچ ہی گئی آبرو
بین کرتی ہواؤں کی آشفتگی
چھین کر لے گئی کاوش جستجو
دیکھنے سوگواران یوسف ہمیں
کتنے پیغمبروں کی لٹی آبرو
پھول اپنی تمازت سے سنولا گئے
لاکھ پھیلا رہا دامن رنگ و بو
اپنی سانسوں پہ یوں بد گمانی سی ہے
کوئی کاٹے بدن تو نہ نکلے لہو
میرؔ جی وہ مغنی کہاں کھو گیا
ہم تو گھوم آئے ہیں در بدر کو بہ کو
غزل
درد کی آنکھ سے تیرے غم کا لہو
جوہر میر