درد کا کیسا رشتہ ہے شہنائی سے
لاڈلی بیٹی پوچھ رہی ہے مائی سے
شادابی زخموں میں کیسے آئے گی
ان بن ٹھہری ہے میری پروائی سے
آنکھوں کے پیالے میں دنیا رہتی ہے
اس کو دیکھوں گا من کی بینائی سے
دشت کی جانب نکلا ہے پھر اس کے ساتھ
یوسف دھوکہ کھائے گا پھر بھائی سے
اپنے اندر کافی ڈوب چکا ہوں میں
نکلوں کیسے جسم کی گہری کھائی سے
سوچ سمجھ کر اس سے باتیں کرتا ہوں
پربت پیدا ہو جاتا ہے رائی سے
سننے والا کوئی نہیں آتا خورشیدؔ
شور لپٹ کر روتا ہے تنہائی سے

غزل
درد کا کیسا رشتہ ہے شہنائی سے
خورشید احمد ملک