درد جب جب جہاں سے گزرے گا
قافلہ ہو کے جاں سے گزرے گا
فکر میں آئے گا سوال مرا
اور جواب اس کا ہاں سے گزرے گا
میں تو یہ سوچ بھی نہیں سکتا
کوئی شکوہ زباں سے گزرے گا
سامنے آئے گا مرا کردار
ذکر جب داستاں سے گزرے گا
پھر مجھے یاد آئے گا بچپن
اک زمانہ گماں سے گزرے گا
رہ گزر ہے اداس میری طرح
جانے کب وہ یہاں سے گزرے گا
لوگ حیرت میں ڈوب جائیں گے
جب بھی وہ درمیاں سے گزرے گا
یہ پرندہ جو قید میں ہے ابھی
ایک دن آسماں سے گزرے گا
غزل
درد جب جب جہاں سے گزرے گا
گووند گلشن