درد ان دنوں یوں چہرۂ عالم پہ سجا ہے
ہر شخص نے جیسے مرا غم بانٹ لیا ہے
ہر آن ترے تن میں وہ جادو سا رچا ہے
جو وصل کا لمحہ ہے وہ صحرا کی گھٹا ہے
اک عمر کے بعد آج یکایک جو ملے ہو
وہ سیل مسرت ہے کہ دل ڈوب گیا ہے
وہ بات جو سن پاؤ تو پہروں تمہیں تڑپائے
اک لمحے کی تنہائی نے جو مجھ سے کہا ہے
ہو دوست کہ دل کوئی چھپائے نہیں چھپتا
ہر چوٹ کے پہلو میں اک آئینہ لگا ہے
جنگل تھے جنوں خیز ہوئے شہر بھی ویراں
سناٹے میں ہر قریۂ دل جاگ گیا ہے
کیا کس سے گلا کیجیئے خود ہم نہیں اپنے
دنیا کا ظہیرؔ ان دنوں کیا حال ہوا ہے
غزل
درد ان دنوں یوں چہرۂ عالم پہ سجا ہے
ظہیر فتح پوری