درد اکسیر کے سوا کیا ہے
زخم دل کے بنا مزا کیا ہے
میری سانسوں میں بس گئی ہے مہک
ہائے اس کوچے کی ہوا کیا ہے
وصل کے چار دن تو بیت گئے
صرف یادیں ہیں اب بچا کیا ہے
دل دیا جس کو وہ ہوا غافل
جرم اظہار کی سزا کیا ہے
کھو گیا وہ جہاں کے میلے میں
میری دنیا میں اب رہا کیا ہے
بات ہوتی تھی کل نگاہوں سے
ان اشاروں کا اب ہوا کیا ہے
جانتے جب تھے عشق کا انجام
موناؔ قسمت سے پھر گلہ کیا ہے
غزل
درد اکسیر کے سوا کیا ہے
ایلزبتھ کورین مونا