درد ہو تو دوا کرے کوئی
موت ہی ہو تو کیا کرے کوئی
بند ہوتا ہے اب در توبہ
در مے خانہ وا کرے کوئی
قبر میں آ کے نیند آئی ہے
نہ اٹھائے خدا کرے کوئی
حشر کے دن کی رات ہو کہ نہ ہو
اپنا وعدہ وفا کرے کوئی
نہ ستائے کسی کو کوئی ریاضؔ
نہ ستم کا گلہ کرے کوئی

غزل
درد ہو تو دوا کرے کوئی
ریاضؔ خیرآبادی