درد الفت کے بیاں کی نہ ضرورت ہوگی
میرے چہرے سے عیاں دل کی حقیقت ہوگی
کون فریاد کرے گا کسے جرأت ہوگی
حشر میں پیش نظر جب تری صورت ہوگی
داستان شب ہجراں کی کروں کیا تشریح
مختصر بھی جو کہوں گا تو طوالت ہوگی
پیش داور تو کروں خون کا دعویٰ لیکن
میرے قاتل کو سر حشر ندامت ہوگی
درد ہجراں کے بیاں کی نہیں مجھ کو حاجت
ان پہ ظاہر دل بیتاب کی حالت ہوگی
اس لئے ان کے قدم بڑھ نہیں سکتے آگے
رہ گزر میں کسی ناشاد کی تربت ہوگی
داغ الفت ہیں وہی پھول کہ رفتہ رفتہ
جن سے کاشانۂ دل کی مرے زینت ہوگی
زندگی قلب کی حرکت ہی سے وابستہ ہے
دل جو ٹھہرے گا تو اک اور قیامت ہوگی
غزل
درد الفت کے بیاں کی نہ ضرورت ہوگی
شعلہ کراروی