EN हिंदी
درد مسلسل سے آہوں میں پیدا وہ تاثیر ہوئی | شیح شیری
dard-e-musalsal se aahon mein paida wo tasir hui

غزل

درد مسلسل سے آہوں میں پیدا وہ تاثیر ہوئی

عاجز ماتوی

;

درد مسلسل سے آہوں میں پیدا وہ تاثیر ہوئی
اکثر چارہ گروں کی حالت مجھ سے سوا گمبھیر ہوئی

کیا جانے کیوں مجھ سے میری برگشتہ تقدیر ہوئی
مملکت عیش آنکھ جھپکتے ہی غم کی جاگیر ہوئی

اس نے میرے شیشۂ دل کو دیکھ کے کیوں منہ موڑ لیا
شاید اس آئینے میں اس کو ظاہر کوئی لکیر ہوئی

جب بھی لکھا حال دل مضطر میں نے اس کو رات گئے
تا بہ سحر اشک افشانی سے ضائع وہ تحریر ہوئی

بڑھتی جاتی ہے دورئ منزل جب سے جنوں نے چھوڑا ساتھ
اب تو خرد ہر گام پر اپنے پیروں کی زنجیر ہوئی

مجھ کو عطا کرتے وہ یقیناً میری طلب سے سوا لیکن
خودداری میں ہاتھ نہ پھیلا شرم جو دامن گیر ہوئی

کس کو خبر ہے ان کی گلی میں کتنے دلوں کا خون ہوا
رعنائی میں ان کی گلی جب وادئ کشمیر ہوئی

ان سے کروں اظہار تمنا سوچا رکھ کر عذر جنوں
لیکن وہ بھی راس نہ آیا لا حاصل تدبیر ہوئی

ٹپ ٹپ آنکھ سے آنسو ٹپکے عاجزؔ آہ سرد کے ساتھ
میرے سامنے نذر آتش جب میری تصویر ہوئی