EN हिंदी
درد دل یار رہا درد سے یاری نہ گئی | شیح شیری
dard-e-dil yar raha dard se yari na gai

غزل

درد دل یار رہا درد سے یاری نہ گئی

مبارک عظیم آبادی

;

درد دل یار رہا درد سے یاری نہ گئی
زندگی ہم سے تو بے لطف گزاری نہ گئی

دن کے نالے نہ گئے رات کی زاری نہ گئی
نہ گئی دل سے کبھی یاد تمہاری نہ گئی

ہم تو خوں گشتہ تمناؤں کے ماتم میں رہے
سینہ کوبی نہ گئی سینہ فگاری نہ گئی

انتظار آپ کا کب لطف سے خالی نکلا
رائیگاں رات کسی روز ہماری نہ گئی

بخشوایا مجھے تم نے تو خدا نے بخشا
نہ گئی روز جزا بات تمہاری نہ گئی

لوگ کہتے ہیں بدلتا ہے زمانہ لیکن
دن ہمارا نہ گیا رات ہماری نہ گئی