درد دل میں کمی نہ ہو جائے
دوستی دشمنی نہ ہو جائے
تم مری دوستی کا دم نہ بھرو
آسماں مدعی نہ ہو جائے
بیٹھتا ہے ہمیشہ رندوں میں
کہیں زاہد ولی نہ ہو جائے
طالع بد وہاں بھی ساتھ نہ دے
موت بھی زندگی نہ ہو جائے
اپنی خوئے وفا سے ڈرتا ہوں
عاشقی بندگی نہ ہو جائے
کہیں بیخودؔ تمہاری خودداری
دشمن بے خودی نہ ہو جائے
غزل
درد دل میں کمی نہ ہو جائے
بیخود بدایونی