درد دل کی دوا ہے ماہ نو
آسماں پر کھلا ہے ماہ نو
میری ہی طرح تیرا بھی ان سے
کیا کوئی واسطہ ہے ماہ نو
ان کا چہرہ دکھائی دیتا ہے
کیا کوئی آئنہ ہے ماہ نو
مسکراتا ہے دیکھ کر ہم کو
جیسے سب جانتا ہے ماہ نو
دن کو سوتا ہے وہ نہ جانے کہاں
رات کو جاگتا ہے ماہ نو
رہ کے میری طرح سے چپ انورؔ
جانے کیا سوچتا ہے ماہ نو

غزل
درد دل کی دوا ہے ماہ نو
انور جمال انور