EN हिंदी
درد دل کی دوا ہے ماہ نو | شیح شیری
dard-e-dil ki dawa hai mah-e-nau

غزل

درد دل کی دوا ہے ماہ نو

انور جمال انور

;

درد دل کی دوا ہے ماہ نو
آسماں پر کھلا ہے ماہ نو

میری ہی طرح تیرا بھی ان سے
کیا کوئی واسطہ ہے ماہ نو

ان کا چہرہ دکھائی دیتا ہے
کیا کوئی آئنہ ہے ماہ نو

مسکراتا ہے دیکھ کر ہم کو
جیسے سب جانتا ہے ماہ نو

دن کو سوتا ہے وہ نہ جانے کہاں
رات کو جاگتا ہے ماہ نو

رہ کے میری طرح سے چپ انورؔ
جانے کیا سوچتا ہے ماہ نو