درد دل کے ساتھ کیا میرے مسیحا کر دیا
بے قراری بڑھ گئی ہے جب سے اچھا کر دیا
کیا عجب تھی ان کے پاکیزہ تبسم کی کرن
قلب کی تاریک بستی میں اجالا کر دیا
جب نہ ان کے راز وحشت تک پہنچ پائی نظر
ہوش والوں نے جنوں والوں کو رسوا کر دیا
نفرتوں کی حد بنا کر اپنے میرے درمیاں
وہ بھی تنہا رہ گئے مجھ کو بھی تنہا کر دیا
اب تو حد سے بڑھ گئی تھیں اپنے دل کی الجھنیں
مسکرا کر آپ نے غم کا مداوا کر دیا
ہر نفس باد سحر کی طرح موجیں لے اٹھا
کیا کسی نے ان کی آمد کا اشارا کر دیا
دیکھ کر ساقی کی مستانہ نگاہی اے گہرؔ
زندگی کو ہم نے وقف جام و مینا کر دیا

غزل
درد دل کے ساتھ کیا میرے مسیحا کر دیا
گہر خیرآبادی