EN हिंदी
درد آغاز محبت کا اب انجام نہیں | شیح شیری
dard-e-aghaz-e-mohabbat ka ab anjam nahin

غزل

درد آغاز محبت کا اب انجام نہیں

صفی لکھنوی

;

درد آغاز محبت کا اب انجام نہیں
زندگی کیا ہے اگر موت کا پیغام نہیں

کیجیے غور تو ہر لذت دنیا ہے فریب
کون دانہ ہے یہاں پر جو تہ دام نہیں

ہے تنزل کہ زمانے نے ترقی کی ہے
کفر وہ کفر اب اسلام وہ اسلام نہیں

کون آزاد نہیں حلقہ بگوشوں میں ترے
نقش کس دل کے نگینے پہ ترا نام نہیں

نا رسیدہ ہے ترا میوۂ جنت زاہد
پختہ مغزوں کو تلاش ثمر خام نہیں

یہی جنت ہے جو حاصل ہو سکون خاطر
اور دوزخ یہی دنیا اگر آرام نہیں

شعر گوئی کے لیے بس وہی موزوں ہے صفیؔ
جس کو جز فکر سخن اور کوئی کام نہیں