EN हिंदी
درد بڑھتا گیا جتنے درماں کیے پیاس بڑھتی گئی جتنے آنسو پیے | شیح شیری
dard baDhta gaya jitne darman kiye pyas baDhti gai jitne aansu piye

غزل

درد بڑھتا گیا جتنے درماں کیے پیاس بڑھتی گئی جتنے آنسو پیے

عامر عثمانی

;

درد بڑھتا گیا جتنے درماں کیے پیاس بڑھتی گئی جتنے آنسو پیے
اور جب دامن ضبط چھٹنے لگا ہم نے خوابوں کے جھوٹے سہارے لیے

عشق بڑھتا رہا سوئے دار و رسن زخم کھاتا ہوا مسکراتا ہوا
راستہ روکتے روکتے تھک گئے زندگی کے بدلتے ہوئے زاویے

گم ہوئی جب اندھیروں میں راہ وفا ہم نے شمع جنوں سے اجالا کیا
جب نہ پائی کوئی شکل بخیہ گری ہم نے کانٹوں سے زخموں کے منہ سی لیے

اس کے وعدوں سے اتنا تو ثابت ہوا اس کو تھوڑا سا پاس تعلق تو ہے
یہ الگ بات ہے وہ ہے وعدہ شکن یہ بھی کچھ کم نہیں اس نے وعدے کیے

ختم ہونے کو ہے قصۂ زندگی اب ہمیں آپ سے کوئی شکوہ نہیں
ٹل نہ جائے کہیں موت آئی ہوئی پرسش غم کی زحمت نہ فرمائیے

جب حجابوں میں پنہاں تھا حسن بتاں بت پرستی کا بھی ایک معیار تھا
اب تو ہر موڑ پر بت ہی بت جلوہ گر اب کہاں تک بتوں کو خدا مانیے

کتنے ارباب ہمت نے ان کے لیے بڑھ کے میدان میں جان بھی ہار دی
اب بھی ان کی نگاہوں میں ہے بد ظنی اب بھی ان کو وفا کی سند چاہیے

جس نے لوٹا تھا اس کو سلامی ملی ہم لٹے ہم کو ملزم بتایا گیا
مست آنکھوں پہ الزام آیا نہیں ہم پہ لگتی رہیں تہمتیں بن پیے

جس نے عامرؔ متاع خودی بیچ دی سچ یہ ہے عصمت زندگی بیچ دی
سر جھکانے سے بہتر ہے سر دیجیے بھیک لینے سے بہتر ہے مر جائیے