دربار میں اب سطوت شاہی کی علامت
درباں کا عصا ہے کہ مصنف کا قلم ہے
آوارہ ہے پھر کوہ ندا پر جو بشارت
تمہید مسرت ہے کہ طول شب غم ہے
جس دھجی کو گلیوں میں لیے پھرتے ہیں طفلاں
یہ میرا گریباں ہے کہ لشکر کا علم ہے
جس نور سے ہے شہر کی دیوار درخشاں
یہ خون شہیداں ہے کہ زر خانۂ جم ہے
حلقہ کیے بیٹھے رہو اک شمع کو یارو
کچھ روشنی باقی تو ہے ہر چند کہ کم ہے
غزل
دربار میں اب سطوت شاہی کی علامت (ردیف .. ے)
فیض احمد فیض