EN हिंदी
ڈرا رہے ہیں یہ منظر بھی اب تو گھر کے مجھے | شیح شیری
Dara rahe hain ye manzar bhi ab to ghar ke mujhe

غزل

ڈرا رہے ہیں یہ منظر بھی اب تو گھر کے مجھے

دنیش نائیڈو

;

ڈرا رہے ہیں یہ منظر بھی اب تو گھر کے مجھے
دکھائی خواب دئیے رات بھر کھنڈر کے مجھے

ہر اک غزل میں میں روزانہ چاند ٹانکتا ہوں
ستارہ چومتے ہیں شب اتر اتر کے مجھے

گنوا دی عمر اسے نظم کر نہیں پایا
سلیقہ آتے ہیں ویسے تو ہر ہنر کے مجھے

اس ایک شوق نے مجھ کو مٹا دیا یارو
بس ایک بار کبھی دیکھنا تھا مر کے مجھے

کنارے بیٹھ کے کرتا ہوں نظم اشکوں کو
ندی سناتی ہے افسانے چشم تر کے مجھے

میں اک ادھوری سی تصویر تھا اداسی کی
کیا ہے اس نے مکمل تباہ کر کے مجھے