ڈرا رہا ہے مجھے ایک ڈر اندھیرے میں
بچھڑ نہ جائے کہیں ہم سفر اندھیرے میں
امڈتی کالی گھٹاؤں کو روکنا ہوگا
نہ ڈوب جائے کہیں دوپہر اندھیرے میں
کرو نہ میرے لئے تم کوئی دیا روشن
مجھے اب آنے لگا ہے نظر اندھیرے میں
کئی چراغوں نے اودھم مچائی تھی اک شب
تبھی سے ڈوب گیا گھر کا گھر اندھیرے میں
وہ اپنی ذات میں اک چاند ہے پہ وقت سحر
میں اپنی ذات میں جگنو ہوں پر اندھیرے میں
ہر آدمی نکل آتا ہے خول سے باہر
کوئی بھی رہتا نہیں معتبر اندھیرے میں
چراغ والوں کے سب دعوے کھوکھلے نکلے
میں کر رہا ہوں مسلسل سفر اندھیرے میں
کمالؔ ڈال دو تم کوڑے دان میں ان کو
چراغ جلتے نہیں ہیں اگر اندھیرے میں
غزل
ڈرا رہا ہے مجھے ایک ڈر اندھیرے میں
احمد کمال حشمی