EN हिंदी
ڈر یہ ہے بازوؤں میں موم کی صورت نہ پگھل جائے کہیں | شیح شیری
Dar ye hai bazuon mein mom ki surat na pighal jae kahin

غزل

ڈر یہ ہے بازوؤں میں موم کی صورت نہ پگھل جائے کہیں

خالد احمد

;

ڈر یہ ہے بازوؤں میں موم کی صورت نہ پگھل جائے کہیں
تو مرے ساتھ مرے جسم کے دوزخ میں نہ جل جائے کہیں

گھر سے گاتا ہوا نکلا تو ہوں میں نغمۂ احساس مگر
شہر کے شور میں دب جائیں نہ سر لے نہ بدل جائے کہیں

فقط اس خوف سے جاتا نہیں میں صبح طرب کی جانب
افق دل سے ترے درد کا مہتاب نہ ڈھل جائے کہیں

یہ ترا کام نہیں دیکھ نہ دنیا کی طرف گائے جا
مدھم اک آہ میں اک چیخ میں پنچم نہ بدل جائے کہیں

صبح نزدیک ہے کروٹ بھی بدل سوچ سمجھ کر خالدؔ
ذہن پر آخر شب نیند کی تلوار نہ چل جائے کہیں