ڈر یہ ہے بازوؤں میں موم کی صورت نہ پگھل جائے کہیں
تو مرے ساتھ مرے جسم کے دوزخ میں نہ جل جائے کہیں
گھر سے گاتا ہوا نکلا تو ہوں میں نغمۂ احساس مگر
شہر کے شور میں دب جائیں نہ سر لے نہ بدل جائے کہیں
فقط اس خوف سے جاتا نہیں میں صبح طرب کی جانب
افق دل سے ترے درد کا مہتاب نہ ڈھل جائے کہیں
یہ ترا کام نہیں دیکھ نہ دنیا کی طرف گائے جا
مدھم اک آہ میں اک چیخ میں پنچم نہ بدل جائے کہیں
صبح نزدیک ہے کروٹ بھی بدل سوچ سمجھ کر خالدؔ
ذہن پر آخر شب نیند کی تلوار نہ چل جائے کہیں
غزل
ڈر یہ ہے بازوؤں میں موم کی صورت نہ پگھل جائے کہیں
خالد احمد