EN हिंदी
در تک اب چھوڑ دیا گھر سے نکل کر آنا | شیح شیری
dar tak ab chhoD diya ghar se nikal kar aana

غزل

در تک اب چھوڑ دیا گھر سے نکل کر آنا

جرأت قلندر بخش

;

در تک اب چھوڑ دیا گھر سے نکل کر آنا
یا وہ راتوں کو سدا بھیس بدل کر آنا

ہمدمو یہ کوئی رونا ہے کہ طوفان ہے آہ
دیکھیو چشم سے دریا کا ابل کر آنا

قصد جب جانے کا کرتا ہوں میں اس شوخ کے پاس
تیغ ابرو یہ کہے ہے کہ سنبھل کر آنا

حاصل اس کوچے میں جانے سے ہمیں ہے اور کیا
الٹے گھر اپنے مگر خاک میں رل کر آنا

واں سے اول دل بے تاب تو کب آتا ہے
اور آنا بھی تو سو جا پہ مچل کر آنا

ہمدمو میری سفارش کو تو جاتے ہو ولے
کہیں واں جا کے نہ کچھ اور خلل کر آنا

ڈوبے یوں بحر محبت میں کہ اب جیتے جی
اپنا دشوار ہے اوپر کو اچھل کر آنا

کوئے قاتل میں دم نزع کوئی لے جاؤ
جا کے اس جا ہمیں عقدہ ہے یہ حل کر آنا

اس کا بے وجہ نہیں ہے یہ چمن سے باہر
گل مرے سامنے ہاتھوں میں مسل کر آنا

بزم خوباں میں اگرچہ کوئی پرچائے ہزار
پر ترے پاس ہمیں واں سے بھی ٹل کر آنا

جی چلا تن سے مرے جلد ز راہ اشفاق
گھر سے دو چار قدم ایسے میں چل کر آنا

جرأتؔ اس کی کہوں کیا تجھ سے طرح داری میں
جانا جب اٹھ کے تب اک روپ بدل کر آنا