در پیش نہیں نقل مکانی کئی دن سے
آئی نہ طبیعت میں روانی کئی دن سے
پھر ریت کے دریا پہ کوئی پیاسا مسافر
لکھتا ہے وہی ایک کہانی کئی دن سے
دشمن کا کنارے پہ بڑا سخت ہے پہرا
آیا نہ مرے شہر میں پانی کئی دن سے
سونپے تھے کہاں دھوپ کے موسم کو گھنے پیڑ
میں ڈھونڈ رہا ہوں وہ نشانی کئی دن سے
شاید کوئی بھٹکا ہے وہاں قافلہ اظہرؔ
صحرا نے مری خاک نہ چھانی کئی دن سے
غزل
در پیش نہیں نقل مکانی کئی دن سے
اظہرنقوی