در پردہ جفاؤں کو اگر جان گئے ہم
تم یہ نہ سمجھنا کہ برا مان گئے ہم
اب اور ہی عالم ہے جہاں کا دل ناداں
اب ہوش میں آئے تو مری جان گئے ہم
پلکوں پہ لرزتے ہوئے تارے سے یہ آنسو
اے حسن پشیماں ترے قربان گئے ہم
ہم اور ترے حسن تغافل سے بگڑتے
جب تو نے کہا مان گئے مان گئے ہم
بدلا ہے مگر بھیس غم عشق کا تو نے
بس اے غم دوراں تجھے پہچان گئے ہم
ہے سیفؔ بس اتنا ہی تو افسانۂ ہستی
آئے تھے پریشان پریشان گئے ہم
غزل
در پردہ جفاؤں کو اگر جان گئے ہم
سیف الدین سیف