EN हिंदी
در پردہ جفاؤں کو اگر جان گئے ہم | شیح شیری
dar-parda jafaon ko agar jaan gae hum

غزل

در پردہ جفاؤں کو اگر جان گئے ہم

سیف الدین سیف

;

در پردہ جفاؤں کو اگر جان گئے ہم
تم یہ نہ سمجھنا کہ برا مان گئے ہم

اب اور ہی عالم ہے جہاں کا دل ناداں
اب ہوش میں آئے تو مری جان گئے ہم

پلکوں پہ لرزتے ہوئے تارے سے یہ آنسو
اے حسن پشیماں ترے قربان گئے ہم

ہم اور ترے حسن تغافل سے بگڑتے
جب تو نے کہا مان گئے مان گئے ہم

بدلا ہے مگر بھیس غم عشق کا تو نے
بس اے غم دوراں تجھے پہچان گئے ہم

ہے سیفؔ بس اتنا ہی تو افسانۂ ہستی
آئے تھے پریشان پریشان گئے ہم