در و دیوار سے ڈر لگ رہا تھا
ترا گھر بھی مرا گھر لگ رہا تھا
اسی نے سب سے پہلے ہار مانی
وہی سب سے دلاور لگ رہا تھا
جسے مہتاب کہتا تھا زمانہ
ترے کوچے کا پتھر لگ رہا تھا
جگہ اب چھوڑ دوں بیٹے کی خاطر
وہ کل میرے برابر لگ رہا تھا
خبر کیا تھی بگولوں کا ہے مسکن
پرے سے تو سمندر لگ رہا تھا
چھلکتی تھی غزل ہر زاویے سے
ترا پیکر سخنور لگ رہا تھا
ٹھہرتا کون اک میرے علاوہ
وہاں تو داؤ پر سر لگ رہا تھا
تری یادوں کی رت آئی ہوئی تھی
یہ صحرا مور کا پر لگ رہا تھا
مرے دیوار و در بھی کاغذی تھے
گھٹا میں بھی سمندر لگ رہا تھا
غزل
در و دیوار سے ڈر لگ رہا تھا
اظہر ادیب