در و بست عناصر پارہ پارہ ہونے والا ہے
جو پہلے ہو چکا ہے پھر دوبارہ ہونے والا ہے
گمان مہر میں یہ بات ہی شاید نہیں ہوگی
ہویدا خاک سے بھی اک شرارہ ہونے والا ہے
کنارہ کر نہ اے دنیا مری ہست زبونی سے
کوئی دن میں مرا روشن ستارہ ہونے والا ہے
پگھلنے جا رہا ہے پھر سے بحر منجمد کوئی
سمندر ہی سمندر کا کنارہ ہونے والا ہے
بہت مخفی جسے رکھا گیا تھا چشم امکاں سے
ابھی کچھ دن میں اس کا بھی نظارہ ہونے والا ہے
ہمیں ہیں اس کی نیندیں اور ہمیں اس کے نگہباں ہیں
ہمارے خواب پر کس کا اجارہ ہونے والا ہے
وہی طارقؔ نعیم اب اس قفس کے باب کھولے گا
کسی کی آنکھ سے جو اک اشارہ ہونے والا ہے
غزل
در و بست عناصر پارہ پارہ ہونے والا ہے
طارق نعیم