ڈر نہیں مجھ کو گناہوں کی گراں باری کا
تیری رحمت ہے سبب میری سبک ساری کا
دار نے اک سگ دنیا کو یہ بخشا ہے عروج
ہے فرشتوں میں بھی چرچا مری دیں داری کا
دل و جاں سونپ چکے ہم تجھے اے جان جہاں
اب ہمیں خوف ہی کیا اپنی گرفتاری کا
جان بھی چیز ہے کوئی کہ رکھیں تم سے دریغ
پاس اتنا بھی نہ ہو رسم وفاداری کا
ساقیا سب کو تری ایک نظر کافی تھی
تھا کسے ہوش ترے عہد میں ہشیاری کا
میں فدا آج بھی ہو جائے وہی ایک نگاہ
خاتمہ ہو کہیں اس دور کی خودداری کا
عاشقوں کے لیے ہے دار ہی داروئے شفا
عشق کی طب میں دوا نام ہے بیماری کا
اجل استادہ ہے بالیں پہ مریض غم عشق
آنکھ تو کھول ذرا وقت ہے بیداری کا
جوہرؔ اور حاجب و درباں کی خوشامد کیا خوب
عرش و کرسی پہ گزر ہے ترے درباری کا
غزل
ڈر نہیں مجھ کو گناہوں کی گراں باری کا
محمد علی جوہرؔ