در حقیقت روز و شب کی تلخیاں جاتی رہیں
زندگی سے سب مری دلچسپیاں جاتی رہیں
نام تھا جب تک تو ہم پر سیکڑوں الزام تھے
ہو گئے گمنام تو رسوائیاں جاتی رہیں
اب خیالوں میں وہ میرے ساتھ صبح و شام ہے
جب سے وہ بچھڑا ہے ساری دوریاں جاتی رہیں
اس قدر تنہائیوں نے توڑ ڈالا ہے مجھے
جسم سے ہو کر جدا پرچھائیاں جاتی رہیں
تالے پڑ جائیں گے ہونٹوں پر تمہارے سوچ لو
میرے ہونٹوں سے اگر خاموشیاں جاتی رہیں
لگ رہا ہے ختم ہونا چاہتا ہے سلسلہ
اب دل ناداں کی بیتابیاں جاتی رہیں
غزل
در حقیقت روز و شب کی تلخیاں جاتی رہیں
سیا سچدیو