EN हिंदी
در امید مقفل نہیں ہوا اب تک | شیح شیری
dar-e-umid muqaffal nahin hua ab tak

غزل

در امید مقفل نہیں ہوا اب تک

انعام عازمی

;

در امید مقفل نہیں ہوا اب تک
میں تیرے ہجر میں پاگل نہیں ہوا اب تک

تمام عمر خوشی ساتھ دے نہیں پائی
نزول غم بھی مسلسل نہیں ہوا اب تک

ترے بغیر جو اک مسئلہ بنا ہوا تھا
تو مل گیا بھی تو وہ حل نہیں ہوا اب تک

میں اس کو بھول چکا ہوں عجیب بات ہے یہ
جو چہرہ آنکھ سے اوجھل نہیں ہوا اب تک

تغیرات نے دستور سب بدل ڈالے
اصول عشق معطل نہیں ہوا اب تک

نہ جانے کون مصور بنا رہا ہے مجھے
مرا وجود مکمل نہیں ہوا اب تک

یہ تیرے عشق کی توہین ہے پری زادی
میں تیری یاد میں بیکل نہیں ہوا اب تک