EN हिंदी
در مے کدہ ہے کھلا ہوا سر چرخ آج گھٹا بھی ہے | شیح شیری
dar-e-mai-kada hai khula hua sar-e-charKH aaj ghaTa bhi hai

غزل

در مے کدہ ہے کھلا ہوا سر چرخ آج گھٹا بھی ہے

سردار سوز

;

در مے کدہ ہے کھلا ہوا سر چرخ آج گھٹا بھی ہے
چلے دور ساقیٔ دل ربا کہ چمن میں رقص صبا بھی ہے

غم زندگی سہی جاں گسل مگر اس سے کوئی بچا بھی ہے
یہی غم ہے راز نشاط دل یہی زندگی کا مزا بھی ہے

یہی زخم دل جو نصیب ہے یہی سوز دل کا نقیب ہے
یہ مرے خلوص کا رنگ ہے کسی نازنیں کی عطا بھی ہے

ہے مری نگاہ میں صرف تو کسی اور کی نہیں جستجو
ترے التفات کی آرزو تری بے رخی کا گلا بھی ہے

مجھے کیا اڑائیں گے بال و پر کہ قفس میں عمر ہوئی بسر
میں رہا ہوا بھی کبھی اگر تو رہائی میری سزا بھی ہے

مری داستاں بھی عجیب ہے یہ کسی کسی کا نصیب ہے
کہیں ذکر باد سموم ہے کہیں ذکر موج صبا بھی ہے

نہ تو عضو جاہ پہ فخر کر کہ یہ زندگی تو ہے اک سفر
تجھے کیا خبر ارے بے خبر دبے پاؤں پیچھے قضا بھی ہے

جو بہار فصل شباب تھی وہ مثال ابر گزر گئی
نہیں زندگی میں کوئی خوشی کہ خلاف میرے ہوا بھی ہے

وہ بزعم حسن ہیں خود نگر تو مجھے بھی ناز ہے عشق پر
میں نیاز مند سہی مگر مجھے سوزؔ پاس انا بھی ہے