دم مرگ بالیں پر آیا تو ہوتا
مرے منہ میں پانی چوایا تو ہوتا
یہ سچ ہے وفادار کوئی نہیں ہے
کسی دن مجھے آزمایا تو ہوتا
تسلی نہ دیتا تشفی نہ کرتا
مرے رونے پر مسکرایا تو ہوتا
مجھے اپنی فرقت سے مارا تو مارا
دم نزع مکھڑا دکھایا تو ہوتا
غلط ہے کہ مردہ نہیں زندہ ہوتا
تو میرے جنازے پر آیا تو ہوتا
وہیں چونک اٹھتا میں خواب لحد سے
مرا شانہ تو نے ہلایا تو ہوتا
ہوا عید کے دن میں قربان تجھ پر
بلا کر گلے سے لگایا تو ہوتا
مرے قتل پر تم نے بیڑا اٹھایا
مرے ہاتھ کا پان کھایا تو ہوتا
وہ سنتا نہ سنتا ہوس تو نہ رہتی
مرا حال ہمدم سنایا تو ہوتا
مسی پر بھی داغوں کا ثمرہ نہ پایا
چراغ اک لحد پر جلایا تو ہوتا
گلا ہے مجھے تم سے مرغان گلشن
کبھی درد میرا بٹایا تو ہوتا
کبھی میرے جانب سے پرواز کرتے
کوئی حال پرسی کو آیا تو ہوتا
نہیں یہ بھی شکوہ نہ آئے نہ آئے
گلوں کو مرا غم سنایا تو ہوتا
در و بام کا بحرؔ خواہاں نہیں میں
مرے آشیانے میں سایا تو ہوتا
غزل
دم مرگ بالیں پر آیا تو ہوتا
امداد علی بحر