دیر و حرم میں دشت و بیابان و باغ میں
ڈھونڈو نہ مجھ کو میں ہوں خود اپنے سراغ میں
ہاں اے اسیرو خیر سے ہو کس سراغ میں
کھلتے ہیں اب تو پھول ہوا بست باغ میں
اس برف زار میں بھی جلاتی ہی جاتی ہے
وہ اک شبیہ جو ہے نہاں دل کے داغ میں
رہتا ہے اب زمین پہ وہ آسماں پسند
ہاں وہ خجل تھا جس سے خدا بھی دماغ میں
ممکن نہیں کہ غار میں دل کے اتر سکے
مانگے کی روشنی ہے تمہارے چراغ میں
کیا قدر وہ کریں گے کسی خوش نوا کی ہوشؔ
تفریق کر سکیں جو نہ قمری و زاغ میں

غزل
دیر و حرم میں دشت و بیابان و باغ میں
ابراہیم ہوش