EN हिंदी
دعوے بلندیوں کے کریں کس زباں سے ہم | شیح شیری
dawe bulandiyon ke karen kis zaban se hum

غزل

دعوے بلندیوں کے کریں کس زباں سے ہم

مجاہد فراز

;

دعوے بلندیوں کے کریں کس زباں سے ہم
خود آ گئے زمین پہ جب آسماں سے ہم

ہم کو بھی مصلحت نے سیاسی بنا دیا
پہلے کہاں مکرتے تھے اپنی زباں سے ہم

دونوں قدم بڑھائیں مٹانے کو نفرتیں
آغاز تم وہاں سے کرو اور یہاں سے ہم

رستے کی ہر نگاہ تجھے پوچھتی ملی
گزرے ترے بغیر جدھر سے جہاں سے ہم

ہم دھوپ کے بجائے گھنی چھاؤں سے جلے
تھا خوف رہزنوں کا لٹے پاسباں سے ہم

پڑھنا جسے فضول سمجھتی ہے نسل نو
مشہور ہو گئے اسی اردو زباں سے ہم

تب دشمنوں کے باب میں سوچیں فرازؔ ہم
فرصت ذرا جو پائیں غم دوستاں سے ہم