داستاں وصل کی اک بات سے آگے نہ بڑھی
آپ کی شکوہ شکایت سے آگے نہ بڑھی
لاکھ روتی رہی جلتی رہی افسوس مگر
زندگی شمع کی اک رات سے آگے نہ بڑھی
تو جفا کیش رہا اور میں وفا کوش رہا
بات تیری بھی مری بات سے آگے نہ بڑھی
یوں تو آغاز محبت میں بڑے دعوے تھے
دوستی پہلی ملاقات سے آگے نہ بڑھی
مل گئے جب وہی شکوے وہی قصے اسعدؔ
یہ خرافات خرافات سے آگے نہ بڑھی
غزل
داستاں وصل کی اک بات سے آگے نہ بڑھی
اسعد بدایونی