EN हिंदी
داستاں وصل کی اک بات سے آگے نہ بڑھی | شیح شیری
dastan wasl ki ek baat se aage na baDhi

غزل

داستاں وصل کی اک بات سے آگے نہ بڑھی

اسعد بدایونی

;

داستاں وصل کی اک بات سے آگے نہ بڑھی
آپ کی شکوہ شکایت سے آگے نہ بڑھی

لاکھ روتی رہی جلتی رہی افسوس مگر
زندگی شمع کی اک رات سے آگے نہ بڑھی

تو جفا کیش رہا اور میں وفا کوش رہا
بات تیری بھی مری بات سے آگے نہ بڑھی

یوں تو آغاز محبت میں بڑے دعوے تھے
دوستی پہلی ملاقات سے آگے نہ بڑھی

مل گئے جب وہی شکوے وہی قصے اسعدؔ
یہ خرافات خرافات سے آگے نہ بڑھی